ولاد کے آنے سے ایسا لگتا ہے جیسے امر ہوگیا انسان ۔ اولاد کے ہر ایک لفظ، شوخی ، حرکت کو والدین دل کی گہرایوں اور آنکھوں کے سجدوں سے سراہتے ہیں، اپنے دل و دماغ اور کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کرلیتے ہیں غرض کہ ایک نئی زندگی کی شروعات ہوجاتی ہیں اور پھر انکی زندگی کا مقصد ہی اولاد کی راحت، سکون ، اعلی تربیت ، اونچا مقام و مرتبہ بن جاتا ہے جس میں وہ ہر دن جوانی سے بڑھاپے کی طرف بڑھتے جاتے ہیں اور بالآخر ایک دن زمین کے نیچے چلے جاتے ہیں ۔ مگر قیامت اس وقت ٹوٹتی ہے جب یہی اولاد والدین سے دور ہوجاتی ہے، انہیں والدین سے لگاو تو دور کی بات بیزاری ہونے لگتی ہے، وہ خود کو سمجھدار جب کہ والدین اور اپنے بڑوں بوڑھوں کو بیوقوف اور فرسودہ خیالات کے سمجھ کر کنارہ کشی اختیار کرنے لگتے ہیں ، ان کے لئے اپنی جان جوکھوں میں ڈالنے والے والدین ایک پرانے زمانے کی کوئی چیز سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے۔غور کریں تو ہمارے معاشرے کا سب سے دردناک اور تکلیف دہ پہلو ہی یہی ہے کہ چھوٹوں کا بڑوں ، بزرگوں اور اپنے والدین سے اعتماد ہی اٹھ گیا ہے۔ ایک پیڑی کا دوسری سے، چھٹوں کا بڑوں سے ، نوجوانوں کا بوڑھوں سے فاصلہ یعنی جنریشن گیپ اس قدر بڑھ گیاہے کہ جسے پاٹنا مشکل سے زیادہ ناممکن نظر آنے لگا ہے۔جنریشن گیپ ایک ایسی معاشرتی برائی کا طوفان ہے جس سے شاید ہی کوئی گھر ، خاندان یا ملک بچا ہو۔ہم دکھلاوے کیلئے بڑوں کے پاوں تک چھو لیتے ہیں ، انہیں اپنے کندھوں پر اٹھالیتے ہیں مگر انکی رائے ماننا یا مشورہ کرنا، پیش آنے والے حالات و واقعات میں انکے تجربے سے فائدہ اٹھانا اپنی توہین اور ناسمجھی سمجھتے ہیں ۔اسی لئے ہم ایک ایسے دور سے گذر رہیں جس میں بداعتمادی، بدگمانی، ناتجربہ کاری، اختلافات، اخلاقیات سے عاری فترتوں ، جھگڑوں اور ہر قسم کی برائی کا عروج ہے جس کی وجوہات میں سے جہاں اور وجوہات کا بھی دخل ہے وہاں ایک بڑا حصہ اپنے بڑوں پر بداعتمادی اور جنریشن گیپ بھی ہے۔
اسلام میں تو بڑوں کے اکرام و آداب اور اہمیت پر باقاعدہ احکامات اتارے گئے ہیں اور اس جنریشن گیپ کو پاٹنے کیلئے کائنات کے سب سے عقلمند انسان ہمارے آقا حضرت محمد عربی ﷺ کا ارشاد گرامی کا مفہوم ہے کہ ؛ جو اپنے بڑوں کی توقیر و عزت نہ کرے اور اپنے چھوٹوں پر شفقت نہ کرے وہ ہم[مسلمانوں ] میں سے نہیں۔اس کے علاوہ ایک جگہ ارشاد فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی کو بھی سفید بالوں سے حیا آتی ہے کہ کوئی سفید بالوں والا مجھ سے کچھ مانگے اور میں نہ دوں اس سے مجھے حیا آتی ہے۔ بڑی عمر یا بڑھاپے کو کئی مقامات پر اسلام میں فوقیت و رعایت دی گئی ہے۔مشورے میں بڑوں کی رائے کو اہمیت دی گئی ہے۔عقل بھی تجربہ اور عمر کی اہمیت کو مانتی ہے اسے فوقیت دیتی ہے ۔
مگر مقام افسوس یہ ہے کہ آج کی نوجوان نسل خصوصا میڈیا کے دلدادہ لڑکے ، لڑکیاں "آزادی اور سمجھداری " اپنی من چاہی زندگی اور ہر مرضی کو پورا کرنا سمجھتے ہیں اور اس لئے اپنے بڑوں سے دور رہنا عافیت سمجھتے ہیں جبکہ ہمارے بڑوں نے بھی اس دور ی میں کم کردار ادا نہیں کیا۔وہ صحیح وقت پر اس بڑھتی خلیج کو کما حقہ بھانپ نہ سکے اور جنریشن گیپ ایک ناسور بن کر ہمارے معاشرے کی جڑوں کو اس قدر کھوکھلا کرگیا ہے کہ بڑوں اور چھوٹوں کے درمیاں اخلاقی فرائض تک مفقود ہوتے جارہے ہیں ۔ایک بیزاری ہے جس کا ہر دو گروہ بری طرح شکار ہیں ۔اس سلسلے میں اولیا ء اللہ اور علماءکرام کا کردار جہاں کہیں بھرپور رہا وہاں نوجوان نسل دیندار طبقے سے کچھ تعلق قائم رکھ پائی اور کچھ نہیں تو کم از کم دین مخالف سوچ پروان نہ چڑھی۔اور جہاں کہیں علماء کرام نے عوام سے تعلق محدود رکھا یا زیادہ رکھ نہ پائے وہاں تو دین کی رسی ہی ہاتھ سے چھوٹ گئی اور لبرلز کی شکل میں ایک نئی بدعقیدہ ، دین مخالف فوج تیار ہوگئی جسے دین، مسجد، مدرسہ،مولوی، داڑھی، عبائے سے ہی الرجک ہے۔ یہ بات تو مسلم ہے کہ دنیا میں انسانی حقوق، عزت، لحاظ،والدین کی قدر و منزلت و اہمیت، خاندانی نظام کا درس دیا ہے اسلام نے ہے اب جب مذہب اور اسکے احکامات ، مذہبی شعائر سے ہی الرجک ہو تو یہ اخلاقی اقدار بھی رخصت ہونا یقینی تھا جسکا مشاہدہ ہم اور آپ کر ہی رہے ہیں ۔ سوشل میڈیا پر ان اقدار کا جنازہ کیسے نکلتا ہے اسکی تشریح خود کسی طوفان بدتمیزی سے کم نہیں ۔یہاں تک کہ صنف نازک اور مرد کا فرق بھی ختم ہوچکا ہے۔
ایسے بےشمار والدین ہیں جو اپنی اولاد سے نالاں ہیں اسی طرح ایسی اولاد کی بھی کمی نہیں جنہیں اپنے ہی والدین اور بڑے کسی فضول ، بےکار چیز سے زیادہ نہیں لگتے۔یہ سب اصل وبال تو دین سے دوری کا ہے۔بڑوں نے اپنے چھوٹوں کو دین سے دور رکھنے کو عافیت سمجھا اور پھر اپنی ہی زندگی سے عافیت رخصت ہوگئی۔ جب تک ہمارا جوڑدین، مسجد، قرآن اور نماز سے رہا ہم اخلاقیات کا نہ صرف درس پڑھتے بلکہ اقوام عالم کو پڑھاتے رہے، ایک قوم ایک ملت کی طرح آپس میں جڑے رہے ، ایک دوسرے کا سہارا بنتے رہے، ایک دوسرے کے آنسو پونچتے رہے، چھوٹے بڑوں کے محافظ اور بڑے چھوٹوں کے لئے عملی نمونہ، بہترین مشورہ دان رہے، بڑوں کیلئے قدرمنزلت جبکہ چھوٹوں کیلئے شفقت باقی رہی۔مگر جب ہم دنیا اور دوسری قوموں سے مرعوب ہوکر دین سے دور ہوئے تو بس ہر اچھائی اور عافیت ہم سے رخصت ہوگئی۔
اب حال یہ ہے کہ آج کا نوجوان لڑکا یا لڑکی اپنی عقل اور اسکے بعد میڈیا کو اپنا امام سمجھتے ہیں ۔آپ جانتے ہیں کہ میڈیا میں اکثر کس قسم کے ارسطو بھڑے پڑے ہیں جن کا کردار و گفتار موسموں سےزیادہ تیزی سے بدلتا ہے، جو پل میں تولا پل میں ماشہ کی اپنی مثال آپ ہیں ۔ ایسے میں اس نوجوان نسل کو ایسی بات جو فطرت میں ہی اچھائی ہو یا فطرتا ہی برائی ہو اسے سمجھانے کیلئے بھی لاجک چاہئےہوتی ہے۔پھر اگر وہ کوئی ادھیڑ عمر بزرگ یا خاتون یا اپنے ہی والدین سمجھانا چاہیں تو اس کی افادیت کم رہ جانے کے چانسز بہت بڑھ جاتے ہیں اور پھر بھی قسمت ساتھ دے جائے اور کچھ سمجھ آ ہی جائے تو اسے اپنی سمجھ کے مطابق تروڑ مروڑ کے اپناتے ہیں اور من چاہی لاجک بھی خود ہی پیدا کر لیتے ہیں جسکا بھلے فطرت، تجربے، کامیابی سے کوئی دور کا بھی واسطہ نہ ہو۔اب سوچئے اگر آپ کچھ ایسا سمجھانا چاہیں جو بظاہر عقل کے ہی خلاف ہو تو اونٹ کو رکشے میں بٹھانے اور آگے گریں تو منہ پھٹے پیچھے گریں تو سر پھٹے جیسی کیفیت سے گذرنا پڑے گا اور پھر اندازہ ہوتا ہے کہ اس نئی نسل اور ہم میں خلیج کتنی گہری اور زیادہ ہوچکی ہے۔
انہی حالات کیلئے کہا گیا ہے کہ
چراغوں کو لہو دینا پڑے گا : اندھیروں کی حکومت ہو رہی ہے
کہتے ہیں جب تک سانس جاری ہے کچھ بھی ممکن ہے، ناممکن کچھ نہیں اسلئے اس جنریشن گیپ کے عفریت سے ہمیں نمٹنا چاہئے اور اس میں زیادہ ذمہ داری ہمارے بڑوں ، بزرگان دین، علماءکرام ، ائمہ مساجد اور والدین کی ہے کہ اس خلیج کو پاٹنے میں اپنا کردا ر ادا کریں اور اس کے بعد نوجوان نسل کی ہے کہ وہ کھلے دل سے آئندہ کی نسل کو جنریشن گیپ کے ناسور سے بچانے کیلئے اس میں اپناحصہ شامل کریں۔ اسکے لئے بہتر حل یہ ہوسکتا ہے کہ گود سے بچوں کی تربیت کریں ، انہیں بزرگوں کے پاس بیٹھنے کی عادت ڈالیں، کہتے ہیں بچے کو 6 سال کی عمر تک پیار دینا چاہئے(البتہ بچے اس عمر میں سننے کے بجائے جو دیکھتے ہیں وہ اپناتے ہیں اسلئے اپنا عمل اپنے بڑوں ، بزرگوں ، اللہ والوں کے ساتھ انتہائی ادب و احترام اور خدمت کا رکھیں،اعلی گفتار و اخلاق اپنائیں ، دین سے عقیدت و محبت اور مضبوطی کا رکھیں)،پھر 6 سے 13 سال کی عمر تک اسے اپنا غلام بنانا چاہئے(یعنی خدمت لینی چاہئے، کام کا کہنا، کچھ نہ کچھ ذمہ داری لگادینا جیسے بڑوں کی چپلیں سیدھی کرانا، گھر کے اندرونی کام کرانا،والدین ، بزرگوں کے ہاتھ ، پاوں، سر دبوانا وغیرہ )اور پھر 13 سال کی عمر کے بعد انہیں اپنا دوست بنانا چاہئے۔اصلاح کا طریقہ بھی دوستانہ اور مشفقانہ ہو(اشد ضرورت پڑنے پر سختی کی جائے)۔جو بڑے ہیں ان سے شفقت اور دوستی کا تعلق بنائیں ، ان کی پرائوسی کا حصہ بننے کی کوشش کریں ، ان کے دوستوں ، سوسائیٹی، حلقے کا پتہ کریں اور دیکھیں ان میں سے کوئی دین کا باغی و مخالف اور فتنہ پرور انسان یا ماحول تو نہیں ۔اگر ہے تو یہ مشکل صورتحال ہے۔یک دم اسے دور کرنے سے پہلے خود اپنی جگہ پکی ضرور بنالیں ۔ان کے ساتھ گھومیں ، پھریں ، ان کی ہر بات محبت سے سنیں ، ان کے مسائل ان سے دوست بن کر سنیں اور ابتدائی طور سے بچپنے یا کم عقلی کا سامنا کرنا پڑے اسے مسکراتے ہوئے پی جائیں البتہ ان کی اچھی سوچ اور بات کو کھلے دل سے مانیں اور سراہیں بھی، انہیں عار نہ دلائیں ، تنقید، طنز، غصے سے مکمل پرہیز کریں۔ اللہ تعالی سے مدد مانگ کر خود دین ، قرآن ، اسلامی احکامات سے رشتہ مضبوط کریں اور پھر حضرات انبیاکرامؑ خصوصا پیارے آقا رحمۃ اللعالمین ﷺ، صحابہ کرام ؓ،اللہ والوں ؒ، اولیا کرامؒ ،علمائے کرامؒ ، نامور تاریخی اسلامی شخصیات کے واقعات ، حالات، سمجھ ، دانائی کی مثالیں سنا کر نوجوان نسل کو ان کے مسئلہ کا حل سوچنے کا موقع دیں ۔کیونکہ یہی وہ لوگ ہیں جن کی سمجھ اور بصیرت کی آنکھیں اللہ کے نور کا سرمہ لگائے ہوئے ہیں ، جنکی عقل آسمانی وحی یا اللہ کے رسول کی صحبت و تربیت یا ان کی شریعت (جو فطرت انسانی کو بخوبی جانتی ہے)کی دلیل رکھتی ہے ، جس پر کوئی اعتراض یا غلطی کی گنجائش نہیں ۔ آج بھی ایسے سچے اور پاک باز اللہ کے برگزیدہ ، انبیاؑ کے وارث، نیک بندے اولیا کرام کی صورت میں موجود ہیں ان کے ساتھ ملاقات کرائیں ، خود بھی ان کے فیض سے فائدہ اٹھائیں اور اپنی نوجوان نسل کو بھی فائدہ پہنچائیں۔ اچھی صحبت انسان کو اندر سے بدل دیتی ہے، اسکی مثال ایسی ہی ہے جیسے کوئی انسان خوشبو نہ بھی خریدے مگر خوشبو کی دکان میں جائے تو اسے خوشبو تو آئیگی ہی مگر کوئی لوہا گرم کرنے والے سے کچھ نہ خریدے صرف ساتھ سے گذرے تو بھی کپڑے میلے اور کالے ہو ہی جائیں گے۔اسلئے حقیقی اللہ والوں ، اولیا کرام سے اپنا اور اپنی نوجوان نسل کا تعلق مضبوط کریں۔ وہ اللہ والے جو سر تا پا شریعت کے نور سے منور ہوں ، جن کی گفتار و کردار عمدہ اخلاق سے لبریز ہوں ، جنہیں دیکھ کر اللہ یاد آئے اور آخرت کی فکر پیدا ہو، اپنی برائیوں پر نظر پڑے، دنیا کے بجائے موت کی یاد آئے، نفس پرستی کے بجائے تقوی و طہارت، قربانی،ایثار کے جذبات پیدا ہوں ۔چرسی، ہرونچی بابے، ملنگ یا بےشرع عامل اللہ والے تو کجا انسان بھی کہلانے کے لائق نہیں ا ن سے بچنا بھی ہے دوسروں کو بچانا بھی ہے۔یاد رکھیں دین اسلام ہی ہمارے معاشرتی مسائل کا کامل و مکمل حل ہے اس لئے اولا خود اس سے جڑنا ضروری ہے۔یہی وہ تریاق ہے جو انسان کی خرد کے پیمانے کو آسمانی نور اور حقیقی سمجھ سے بھرتا ہے۔