کچھ لوگ اونگنا شروع کردیتے ہیں اور کچھ کسی عمل میں مصروف ہو جاتے ہیں سفر درمیان میں پہنچ جاتا ہے سواری گردو غبار سے اٹتی چلی جاتی ہے اور ایک وقت آتا ہے، گاڑی چلانے والا جو منزل پر نظریں جمائے نا دکھائی دینے والے شیشے کے بھی اس پار باآسانی دیکھتا چلا جاتا ہے جبکہ دیگر مسافر سفر کی طوالت کے باعث سو چکے ہوتے ہیں یا اوب چکے ہیں گاڑی کا آہستہ ہوتے ہوتے کہیں رک جانا اور یہ منزل پر پہنچ جانے کی آواز کا آنا مسافروں کیلئے نا بیان کی جانے والی خوشی کی طرح ہوتی ہے۔
پاکستان مالی بحران کی زد میں ہے اور موجودہ حکومت پہلے دن سے اس بحران سے نکلنے کیلئے ہر ممکن کوشش کر رہی ہے۔ جس کے لئے اپنے مزاج سے ہٹ کر بین الاقوامی مالیاتی ادارے کہ پاس بھی چلے گئے اور انکی شرائط پر قرضہ بھی لے لیا، تجارت کو فروغ دینے کی ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے۔ چین کیساتھ ساتھ ساری دنیا کے سرمایا کاروں کو عام دعوت دی جارہی ہے اور پاکستان کو پر امن ملک بنانے کیلئے پہلے ہی ہمارے قانون نافذ کرنے والے ادارے تن من دھن کی بازی لگائے ہوئے ہیں۔ پاکستان کی موجودہ قیادت کی خصوصیت ہی کہا جائے گا کہ اس حکومت نے بغیر کسی ذاتی مفاد کہ ملک کو ترقی کی راہ پر ڈالنے کیلئے ہر ممکن اقدام کرنے کی ٹھانی ہوئی ہے وزیر اعظم اور انکی پوری ٹیم اپنے اپنے محاذوں پر ڈٹے ہوئے ہیں جبکہ گزشتہ تیس ۰۳ سالوں سے اقتدار کے نشے میں دھت رہنے والے اپنی ضمانتیں کرواتے پھر رہے ہیں۔ سب سے پہلے تو ہم پاکستانیوں کو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ پاکستان کی اس وقت کی معاشی صورتحال کے ذمہ دار یہی لوگ ہیں جنہوں نے ملک کے خزانے کو اپنے باورچی خانے کیلئے سمجھ رکھا تھا اور انکو یقین تھا کہ اس کے علاوہ کبھی کوئی اقتدار میں آہی نہیں سکتا جس کا منہ بولتا ثبوت انکی اولادیں انکے ساتھ ساتھ دکھائی دیتی رہی ہیں اور تو اور ایوانوں تک تو پہنچا ہی دیا گیا ہے۔ لگے ہاتھ حکومت وقت کو یہ صلح دینا چاہتا ہوں کہ ایوان سے بحث و مباحثے کے بعد یہ بل پاس کروائیں کہ نسل در نسل سیاست نہیں چلے گی یعنی اگر باپ انتخابات میں حصہ لے چکا ہے تو بس اب اسکی اولاد میں سے کوئی انتخابات میں شرکت نہیں کرے ہاں اگر اسکی اولاد کی اولاد واپس میدان میں اپنی قابلیت کے بل پر سیاسی جوہر دیکھانا چاہے تو اسے اجازت ہوگی۔ آسان لفظوں میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ پاکستان کو کوٹہ(بانٹنے) نظام سے نجات دلائی جائے اور قابلیت کو ترجیح دی جائے۔
پاکستان دنیا میں اپنا مقام بنانے کی تگ و دو میں ہے اور دشمنوں کو یہ بات کسی بھی طرح سے ہضم نہیں ہورہی۔ پاکستان کے خفیہ اداروں نے دشمن کی چالوں کو کسی حد تک اپنے اختیار میں کرلیا ہے اور بہت حد تک دشمن کی سرگرمیاں معدوم ہوتی دیکھائی دے رہی ہیں۔ کلبھوشن یادھو کے بعد سے بھارت کی بوکھلاہٹ قابل دید ہے پھر رہی سہی کثر عالمی عدالت نے بھی حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے عالمی قانون کے مطابق فیصلہ پاکستان کے حق میں دیدیا جس سے بھارت کی کھسیانی یا ہذیانی کیفیت میں شدید اضافہ ہوا۔ یقینا بھارت اپنے معمول کے بڑائی کے گمان میں ہوگا اور یہ سمجھ رہا ہوگا کہ فیصلہ کچھ بھی ہو انکے ہی حق میں ہوگا (غالب گمان ہے کہ بھارت نے عالمی عدالت پر بیرونی طاقتوں کی حمایت سے زور ڈالنے کی کوشش ضرور کی ہوگی اور اپنے حق میں فیصلہ کروانے کیلئے ہر ممکن تدبیر کی ہوگی) لیکن قدرت کے فیصلے اٹل ہوتے ہیں۔
پاکستان نے ہمیشہ بھارت کے اوچھے ہتھکنڈوں کا جواب ایک مسلمان ریاست ہونے کے ناطے بہت تدبر اور خصوصی طور پر صلہ رحمی سے دیا ہے۔ یہاں تک کہ بھارت آئے دن ہمارے بیگناہ پاکستانیوں کو شہید کرتا رہتا ہے لیکن پاکستان نے کبھی کسی ایسے عمل کا رد عمل بھارتیوں کا قتل عام کرکے نہیں دیا۔بھارت کا کشمیر میں مسلط ہونا اور ظلم اور بربریت کی داستانیں رقم کرنے کا شوق اپنے منطقی انجام کی طرف بڑھتا ہوا محسوس کیا جارہا ہے۔ کہتے ہیں نا کہ چپکے چُپکے جب تک چوری کرتے رہو نظر انداز کی جاتی رہے گی لیکن جس دن کھلے عام اور کوئی بڑی واردات کی تو پھر دھر لئے جاؤ گے۔ تو بھارت کا موجودہ اقدام بھی کھلے عام عالمی قوانین کی دھجیاں اڑانے کہ مترادف ہے جس پر امریکہ کی جانب سے آنے والے بیان میں بھی اس بات کی ناراضگی ظاہر کی گئی ہے کہ بھارت نے ہمیں اس اقدام سے پہلے اعتماد میں نہیں لیا (گوکہ آپ کو بغیر اعتماد میں لئے اب بھارت کچھ بھی کرنے کا ارادہ رکھتا ہے) کیونکہ بھارت اپنے آپ میں بڑا بنا ہوا ہے۔
کیا آج اس انتہائی مشکل وقت میں بھی ہم کشمیر کیساتھ ویسے ہی کھڑے رہینگے جیسے پچھلے ستر سالوں سے کھڑے ہیں؟یہاں آواز اٹھائیں گے، وہاں آواز اٹھائیں گے، یہاں احتجاج کریں گے وہاں احتجاج کریں گے، مسلۂ کشمیر سب سے بڑا مسلۂ ہے تو اب وقت آگیا ہے کہ اس مسلئے کو حل کرلیا جائے اور کس طرح یہ بھی واضح ہوتا جارہا ہے کیونکہ پچھلے 71 سالوں میں تو بھارت بیٹھ کر کشمیر پر بات نہیں کرتا اب خود بھارت نے میدان سجا لیا ہے، اب پاکستان وہ قدم اٹھائے جس سے دوہرے میعار کا خاتمہ ہوجائے، دوست اور دشمن الگ الگ واضح دکھائی دیں اور الگ الگ صف میں کھڑے ہوجائیں۔ اس بات کو بھی ذہن نشین کرنے کی ضرورت ہے کہ اب آپ نے یا ہم نے یہ جنگ یا یہ لڑائی خود لڑنی ہے کوئی ہماری مدد کو نہیں آنے والا اور تاریخ اس بات کی گواہ ہے۔ ایک بات ساری دنیا کو سمجھ لینی چاہئے کہ کشمیر میں لگائی ہوئی بھارت کی یہ آگ اگر بھڑک گئی تو پھر ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔ دنیا کے سہل پسند خصوصی طور پر اس بات پر غور کریں۔ دوسری طرف وزیر اعظم پاکستان نے بہت واضح انداز میں اپنا فیصلہ بھی سنا دیا ہے اور دشمن کو اپنے عزائم سے آگاہ بھی کردیا ہے کہ مسلمان موت سے نہیں ڈرتا۔
پاکستان آج اپنے اندر بھی دوہرے معیار کو ختم کرنے کے درپے ہے۔پاکستان اور پاکستان سے حقیقی تعلق رکھنے والوں کیلئے بہت اچھا موقع ہے کہ وہ دوہرے معیار کو ختم کریں اور ایک طرف ہوکر آگے بڑھیں اس میں کوئی شک نہیں کہ جو اللہ کی راہ میں نکلتا ہے اللہ کے بندوں کی مدد کیلئے نکلتا ہے اللہ غیب سے اسکی مدد فرماتے ہیں۔ اور منافقین کو تو اللہ رب العزت پسند بھی نہیں کرتا۔ طویل جدوجہد کا سفر، سواری بری طرح سے گرد میں آٹی ہوئی ہے، سوار نڈھال ہوئے پڑے ہیں کہ سواری کی رفتار کم ہونا شروع ہوگئی ہے اب کسی بھی وقت سواری رکے گی اور تھکے ماندے طویل سفر کی تھکاوٹ بدن پر لپیٹے مسافروں کو آواز سنائی دے گی چلیں چلیں ہم اپنی منزل پر پہنچ چکے ہیں، کشمیر بھارتی تسلط سے آزاد ہوچکا ہے۔ انشاء اللہ