فیصل آباد کی ایک جامعہ کے ماہرین نفسیات نے کہا کہ نوجوانوں کو صحت مند سرگرمیوں میں مشغول رکھنے کے ساتھ ساتھ معاشرتی سطح پر ان کی تعمیری مصروفیات بڑھا کر منشیات سے پاک معاشرے کی بنیاد رکھی جاسکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں انفرادی اور اجتماعی سطح پر منشیات کے استعمال کے ساتھ ساتھ ایسے عوامل کی بھی حوصلہ شکنی کرنا ہوگی جن کی وجہ سے انسانی نفسیات ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوکر منشیات میں پناہ ڈھونڈتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ لڑکپن میں بہت سے نوجوان تفریح کے طور پر منشیات کا استعمال شروع کر دیتے ہیں تاہم وقت کے ساتھ وہ عام صحت مند انسانوں سے بہت دور چلے جاتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ یونیورسٹی کیمپسز میں سگریٹ کی فروخت نہ صرف مکمل طور ممنوع قرار دی گئی ہے بلکہ سگریٹ بیچنے والے دوکاندار کا ٹھیکہ بھی فوری طور پر منسوخ کر دیا جاتا ہے۔
ڈاکٹر آصف باجوہ، ڈاکٹر اطہر جاوید خان، ڈاکٹر محبوب احمد،ڈاکٹر عاصم عقیل اور ماہر غذائیات بینش اسد نے کہا کہ منشیات کے عادی افراد کی تعداد میں وقت کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے جس کی بڑی وجہ لڑکپن کے دوستوں کا اصرار اور تفریحی رغبت ہے۔ انہوں نے کہا کہ نوجوانوں میں شیشہ اور آئس کا بڑھتا ہوا استعمال بھی منشیات کے عادی افرادکی تعداد میں اضافے کا باعث بن رہا ہے۔ انہوں نے منشیات فروخت کرنے والوں کو معاشرتی دہشت گرد قرار دیتے ہوئے کہا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ایسے عناصر کے خلاف سخت کارروائی کا آغاز کرنا چاہئے۔