تازہ ترین
سابق وزیراعظم عمران خان کی اڈیالہ جیل میں میڈیا اور وکلأ سے گفتگوتعلیمی نظام میں سیمسٹر سسٹم کی خرابیاں24 نومبر فیصلے کا دن، اس دن پتہ چل جائے گا کون پارٹی میں رہے گا اور کون نہیں، عمران خانایشیائی کرنسیوں میں گراوٹ کا اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ ٹرمپ کی جیت ڈالر کو آگے بڑھا رہی ہے۔امریکی صدارتی الیکشن؛ ڈونلڈ ٹرمپ نے میدان مار لیاتاریخ رقم کردی؛ کوئی نئی جنگ نہیں چھیڑوں گا؛ ٹرمپ کا حامیوں سے فاتحانہ خطابیورو و پانڈا بانڈز جاری کرنے کی حکومتی کوشش کی ناکامی کا خدشہکچے کے ڈاکوؤں پر پہلی بار ڈرون سےحملے، 9 ڈاکو ہلاکبانی پی ٹی آئی کے وکیل انتظار پنجوتھہ اٹک سے بازیابایمان مزاری اور شوہر جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالےپشاور ہائیکورٹ کا بشریٰ بی بی کو کسی بھی مقدمے میں گرفتار نہ کرنیکا حکم’’سلمان خان نے برادری کو رقم کی پیشکش کی تھی‘‘ ؛ بشنوئی کے کزن کا الزامالیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو جماعت تسلیم کر لیابشریٰ بی بی اڈیالہ جیل سے رہا ہو کر پشاور پہنچ گئیںجسٹس منیر سمیت کتنے جونیئر ججز سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بنےآئینی ترمیم کیلئے حکومت کو کیوں ووٹ دیا؟مبارک زیب کا ردعمل سامنے آ گیاذرائع کا کہنا ہے کہ لبنان کو اس ہفتے FATF مالیاتی جرائم کی واچ لسٹ میں شامل کیا جائے گا۔امریکہ سیاسی تشدداج جو ترمیم پیش کی گئی قومی اسمبلی میں اس سے پاکستان پر کیا اثرات مرتب ہونگے۔عدلیہ کے پنکھ کٹ گئے۔

سابق وزیراعظم عمران خان کی اڈیالہ جیل میں میڈیا اور وکلأ سے گفتگو

  • kamranshehxad
  • جنوری 7, 2025
  • 12:28 شام

میں نے اپنی زندگی میں پاکستان میں نافذ کیے گئے تمام مارشل لأ یعنی ایوب خان ، یحیٰی خان ، ضیاء الحق اور مشرف کا مارشل لا دیکھے ہیں۔

یحیٰی خان اور ضیاءالحق کا مارشل لا پاکستان کی تاریخ کا بدترین مارشل لاء تھا جس میں جمہوریت کو بالکل روند دیا گیا تھا۔ مشرف اس حوالے سے قدرے لبرل تھا۔ جو کچھ آج ملک میں جمہوریت کے نام پر ہو رہا ہے اسکا موازنہ صرف اور صرف یحیٰی خان کے دور سے کیا جا سکتا ہے۔ مارشل لأ میں سب سے پہلے جمہوریت، آزاد عدلیہ اور آزاد میڈیا کا گلا گھونٹا جاتا ہے تاکہ آمر کی غلط کاریوں پر کوئی بھی آواز بلند کرنے والا نہ ہو ۔ آزاد میڈیا چونکہ تنقید کرتا ہے اس لیے اسکی آواز بند کی جاتی ہے عدلیہ کیونکہ غلط فیصلوں پر ایکشن لینے کا حق رکھتی ہے اس لیے اسکے اختیارات بھی سلب کر لیے جاتے ہیں ۔ آج اس جمہوریت کی آڑ میں نافذ اس مارشل لا میں یہ تمام فسطائی حربے بدرجہ اتم موجود ہیں ۔ یہ کیسی جمہوریت ہے جس میں پاکستان کی سب سے مقبول اور بڑی پارٹی کے چئیرمین کا نام تک میڈیا پر لینے پر پابندی ہے؟ جیسے حمود الرحمان کمیشن کی رپورٹ کے ذریعے واضح ہوا تھا کہ یحیٰی خان نے اپنی طاقت اور اقتدار کی خاطر ملک کے نظام کو تہس نہس کیا وہی کام آج بھی کیا جا رہا ہے۔ فارم 47 کی بوگس اور فراڈ حکومت کو بچانے کے لیے تحریک انصاف کو مسلسل کچلا جا رہا ہے اور ملک میں جمہوریت، قانون کی حکمرانی اور عدلیہ کی آزادی کا جنازہ نکال دیا گیا ہے۔ شہباز شریف صرف اور صرف جنرل عاصم منیر کی ایک کٹھ پتلی اور اردلی ہے، اس سے زیادہ طاقت ور وزیراعظم تو مشرف دور میں شوکت عزیز تھا کیونکہ کم از کم تب انتخابات میں اس سطح کی دھاندلی نہیں کی گئی تھی جیسی فروری 2024 میں کی گئی۔ دھاندلی کی پیداوار فارم 47 کے سہارے کھڑا ناجائز لیکن ناتواں ٹولہ دراصل حکومت کے نام پر ایک دھبہ ہے۔ القادر ٹرسٹ کا فیصلہ صرف اور صرف پچھلے کیسز کی طرح میرے اوپر دباو ڈالنے کے لیے لٹکایا جا رہا ہے مگر میں مطالبہ کرتا ہوں کہ یہ فیصلہ فوری طور پر جاری کیا جائے کیونکہ جیسے پہلے عدت کیس اور سائفر کیس میں آپ کا منہ کالا ہوا اب بھی وہی ہو گا ۔ القادر کیس بالکل ایک بوگس کیس ہے جس میں دور دور تک کوئی میرٹ نہیں۔ میں نے کوئی بلاول ہاؤس نہیں بنوایا بلکہ ایک دور دراز دیہات میں قوم کے بچوں کے مستقبل کی خاطر ایک فلاحی ادارہ قائم کیا جس سے مجھے ایک روپے کا فائدہ نہیں ہوا اور نہ ہونا ہے- القادر ٹرسٹ یونیورسٹی بھی شوکت خانم اور نمل یونیورسٹی کی طرح ایک عوامی مدد سے چلنے والا فلاحی ادارہ ہے- میں واضع طور پہ کہنا چاہتا ہوں کہ میں نواز شریف اور زرداری کی طرح این آر او نہیں لوں گا۔ اور عدالتوں سے اپنے کیسز ختم کروائیں گے۔ بشری بی بی کا کسی سے کوئی رابطہ نہیں ہے۔ یہ محض پراپگنڈا ہے۔ ہماری مذاکراتی کمیٹی ہی ان معاملات کو دیکھ رہی ہے ۔ اسلام آباد قتل عام کو 6 ہفتے ہو چکے ہیں، ہمارے گمشدہ افراد کو لیکر حکومت کی طرف سے کوئی پیش رفت نہیں کی گئی۔ یہ مذاکرات کی کامیابی میں حکومت کی غیر سنجیدگی کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ پاکستان میں معیشت کا حال بدترین ہے ۔ گروتھ ریٹ صفر ہے مصنوعی طریقے سے ڈالر کو قابو میں رکھنا کوئی معاشی کامیابی نہیں ہوتی۔ ملک میں ترقی صرف سرمایہ کاری سے آتی ہے اور سرمایہ کاری کبھی ایسے ملک میں نہیں آتی جہاں قانون کا وجود ہی فوت ہو چکا ہو ، عدالتیں آزاد نہ ہوں ، دہشتگردی ہو اور جہاں اصل عوامی نمائندگان حکومت کی بجائے جیلوں میں ہوں۔ ایسا ملک کبھی ترقی کر ہی نہیں پایا-“

کامران شہزاد

کامران شہزاد امریکہ کی نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں بین الاقوامی تعلقات کے بیچلر ہیں۔ میں سیاسی تزویراتی جیو پولیٹیکل تبدیلیوں میں دلچسپی رکھتا ہوں۔اور ساتھ میں ہفتہ، وار کالم لکھتا ہوں ٹائم اف انڈیا میں۔ اس کالم نگاری اور گلوبل پولیٹیکل میں کام پچھلے سات سال سے اس شعبے سے وابستہ ہوں۔

کامران شہزاد