تازہ ترین
تعلیمی نظام میں سیمسٹر سسٹم کی خرابیاں24 نومبر فیصلے کا دن، اس دن پتہ چل جائے گا کون پارٹی میں رہے گا اور کون نہیں، عمران خانایشیائی کرنسیوں میں گراوٹ کا اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ ٹرمپ کی جیت ڈالر کو آگے بڑھا رہی ہے۔امریکی صدارتی الیکشن؛ ڈونلڈ ٹرمپ نے میدان مار لیاتاریخ رقم کردی؛ کوئی نئی جنگ نہیں چھیڑوں گا؛ ٹرمپ کا حامیوں سے فاتحانہ خطابیورو و پانڈا بانڈز جاری کرنے کی حکومتی کوشش کی ناکامی کا خدشہکچے کے ڈاکوؤں پر پہلی بار ڈرون سےحملے، 9 ڈاکو ہلاکبانی پی ٹی آئی کے وکیل انتظار پنجوتھہ اٹک سے بازیابایمان مزاری اور شوہر جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالےپشاور ہائیکورٹ کا بشریٰ بی بی کو کسی بھی مقدمے میں گرفتار نہ کرنیکا حکم’’سلمان خان نے برادری کو رقم کی پیشکش کی تھی‘‘ ؛ بشنوئی کے کزن کا الزامالیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو جماعت تسلیم کر لیابشریٰ بی بی اڈیالہ جیل سے رہا ہو کر پشاور پہنچ گئیںجسٹس منیر سمیت کتنے جونیئر ججز سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بنےآئینی ترمیم کیلئے حکومت کو کیوں ووٹ دیا؟مبارک زیب کا ردعمل سامنے آ گیاذرائع کا کہنا ہے کہ لبنان کو اس ہفتے FATF مالیاتی جرائم کی واچ لسٹ میں شامل کیا جائے گا۔امریکہ سیاسی تشدداج جو ترمیم پیش کی گئی قومی اسمبلی میں اس سے پاکستان پر کیا اثرات مرتب ہونگے۔عدلیہ کے پنکھ کٹ گئے۔فضل الرحمان کہتے ہیں کہ اتحاد نے آئینی ترمیم کی مخالفت کو مؤثر طریقے سے بے اثر کیا۔

الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو جماعت تسلیم کر لیا

  • kamranshehxad
  • اکتوبر 25, 2024
  • 2:39 شام

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کو باقاعدہ طور پر ایک سیاسی جماعت کے طور پر تسلیم کر لیا ہے

جس سے یہ جماعت اب قومی سیاست میں ایک باضابطہ حیثیت حاصل کرچکی ہے۔ یہ فیصلہ اس وقت سامنے آیا جب پی ٹی آئی نے تمام قانونی تقاضے پورے کرتے ہوئے ضروری دستاویزات اور پارٹی منشور الیکشن کمیشن کو جمع کروائے۔

جماعت کی رجسٹریشن کی اہمیت

الیکشن کمیشن کی جانب سے کسی بھی سیاسی جماعت کی تسلیم شدگی انتہائی اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ یہ تسلیم شدگی ایک جماعت کو نہ صرف انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دیتی ہے بلکہ اس کے تحت جماعت کو حکومتی اداروں اور عوام کے سامنے قانونی طور پر ایک جائز حیثیت حاصل ہو جاتی ہے۔ پی ٹی آئی کی بطور جماعت رجسٹریشن اس بات کی علامت ہے کہ اس نے تمام قانونی اور آئینی تقاضے پورے کیے ہیں۔

پی ٹی آئی کی سیاسی جدوجہد

پاکستان تحریک انصاف کی بنیاد 1996 میں عمران خان نے رکھی تھی۔ اس جماعت کا مقصد کرپشن سے پاک اور انصاف پر مبنی ایک نیا پاکستان بنانا تھا۔ پی ٹی آئی نے اپنی جدوجہد کے دوران مختلف انتخابات میں حصہ لیا، اور کئی بار تنقید اور مخالفت کا سامنا بھی کیا۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ، پی ٹی آئی نے عوامی حمایت حاصل کی اور مختلف مواقع پر حکومتی سطح پر بھی حصہ لیا۔

الیکشن کمیشن کا کردار

پاکستان میں الیکشن کمیشن ایک آزاد اور خود مختار ادارہ ہے جو ملک میں صاف و شفاف انتخابات کے انعقاد کو یقینی بناتا ہے۔ اس ادارے کا کام نہ صرف انتخابات کی نگرانی کرنا ہے بلکہ سیاسی جماعتوں کی رجسٹریشن اور ان کی سرگرمیوں کی مانیٹرنگ بھی کرنا ہے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے پی ٹی آئی کو ایک جماعت کے طور پر تسلیم کرنا اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ یہ جماعت الیکشن کمیشن کے قواعد و ضوابط کے مطابق کام کر رہی ہے۔

قانونی اور آئینی تقاضے

الیکشن کمیشن کی جانب سے کسی جماعت کی تسلیم شدگی کے لئے کئی اہم تقاضے پورے کرنے پڑتے ہیں۔ ان میں جماعت کے منشور، آئین، مالی بیانات، اور پارٹی ممبرز کی تفصیلات شامل ہوتی ہیں۔ پی ٹی آئی نے ان تمام تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے اپنی قانونی حیثیت کو مضبوط کیا ہے۔ اس تسلیم شدگی کے بعد، پی ٹی آئی کو انتخابات میں حصہ لینے اور دیگر سیاسی سرگرمیوں کو باضابطہ طور پر انجام دینے کا حق حاصل ہو گیا ہے۔

مستقبل کی توقعات

پی ٹی آئی کی جماعت کے طور پر تسلیم شدگی کے بعد، یہ امید کی جا رہی ہے کہ وہ ملکی سیاست میں ایک مؤثر کردار ادا کرے گی۔ اس تسلیم شدگی سے جماعت کو نہ صرف مزید اعتماد ملے گا بلکہ وہ عوام کے سامنے اپنے نظریات کو مزید واضح طور پر پیش کر سکے گی۔ اس کے علاوہ، پی ٹی آئی کو اپنے منشور پر عمل درآمد کرنے اور انتخابات میں حصہ لینے کے لئے مزید مواقع حاصل ہوں گے۔

پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے قانونی تقاضوں کو پورا کرنے کے بعد، الیکشن کمیشن نے اسے ایک باضابطہ سیاسی جماعت کے طور پر تسلیم کر لیا ہے۔ یہ تسلیم شدگی پی ٹی آئی کے لئے ایک اہم سنگ میل ہے اور اسے ملکی سیاست میں مزید مضبوط کردار ادا کرنے کی راہ ہموار کرے گی۔ اس فیصلے کے بعد، پی ٹی آئی کو قومی اور صوبائی سطح کے انتخابات میں حصہ لینے کا قانونی حق مل گیا ہے، جو اسے مستقبل میں عوام کی نمائندگی کے لئے ایک مضبوط موقع فراہم کرتا ہے۔

کامران شہزاد

کامران شہزاد امریکہ کی نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں بین الاقوامی تعلقات کے بیچلر ہیں۔ میں سیاسی تزویراتی جیو پولیٹیکل تبدیلیوں میں دلچسپی رکھتا ہوں۔اور ساتھ میں ہفتہ، وار کالم لکھتا ہوں ٹائم اف انڈیا میں۔ اس کالم نگاری اور گلوبل پولیٹیکل میں کام پچھلے سات سال سے اس شعبے سے وابستہ ہوں۔

کامران شہزاد