تازہ ترین
تعلیمی نظام میں سیمسٹر سسٹم کی خرابیاں24 نومبر فیصلے کا دن، اس دن پتہ چل جائے گا کون پارٹی میں رہے گا اور کون نہیں، عمران خانایشیائی کرنسیوں میں گراوٹ کا اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ ٹرمپ کی جیت ڈالر کو آگے بڑھا رہی ہے۔امریکی صدارتی الیکشن؛ ڈونلڈ ٹرمپ نے میدان مار لیاتاریخ رقم کردی؛ کوئی نئی جنگ نہیں چھیڑوں گا؛ ٹرمپ کا حامیوں سے فاتحانہ خطابیورو و پانڈا بانڈز جاری کرنے کی حکومتی کوشش کی ناکامی کا خدشہکچے کے ڈاکوؤں پر پہلی بار ڈرون سےحملے، 9 ڈاکو ہلاکبانی پی ٹی آئی کے وکیل انتظار پنجوتھہ اٹک سے بازیابایمان مزاری اور شوہر جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالےپشاور ہائیکورٹ کا بشریٰ بی بی کو کسی بھی مقدمے میں گرفتار نہ کرنیکا حکم’’سلمان خان نے برادری کو رقم کی پیشکش کی تھی‘‘ ؛ بشنوئی کے کزن کا الزامالیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو جماعت تسلیم کر لیابشریٰ بی بی اڈیالہ جیل سے رہا ہو کر پشاور پہنچ گئیںجسٹس منیر سمیت کتنے جونیئر ججز سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بنےآئینی ترمیم کیلئے حکومت کو کیوں ووٹ دیا؟مبارک زیب کا ردعمل سامنے آ گیاذرائع کا کہنا ہے کہ لبنان کو اس ہفتے FATF مالیاتی جرائم کی واچ لسٹ میں شامل کیا جائے گا۔امریکہ سیاسی تشدداج جو ترمیم پیش کی گئی قومی اسمبلی میں اس سے پاکستان پر کیا اثرات مرتب ہونگے۔عدلیہ کے پنکھ کٹ گئے۔فضل الرحمان کہتے ہیں کہ اتحاد نے آئینی ترمیم کی مخالفت کو مؤثر طریقے سے بے اثر کیا۔

اج جو ترمیم پیش کی گئی قومی اسمبلی میں اس سے پاکستان پر کیا اثرات مرتب ہونگے۔

  • kamranshehxad
  • اکتوبر 21, 2024
  • 5:16 شام

21 اکتوبر 2024 کو قومی اسمبلی میں 26ویں آئینی ترمیم پیش کی گئی، جو پاکستان کے آئینی، عدالتی، اور قانونی ڈھانچے میں چند اہم تبدیلیاں متعارف کرواتی ہے

اس ترمیم کے ذریعے عدلیہ کے ڈھانچے میں تبدیلیاں کی گئی ہیں، خاص طور پر چیف جسٹس کی عمر کی حد کو 65 سال تک محدود کر دیا گیا ہے، جس کا مقصد عدالتی نظام میں تسلسل اور شفافیت کو برقرار رکھنا ہے۔ اس کے علاوہ، سمندر پار پاکستانیوں کی جائیدادوں کے تحفظ کے لیے خصوصی عدالتوں کے قیام کا بل بھی منظور کیا گیا ہے۔

آئینی ترمیم کے اہم نکات:

1. چیف جسٹس کی مدتِ ملازمت: 26ویں آئینی ترمیم کے تحت چیف جسٹس کی زیادہ سے زیادہ عمر کی حد 65 سال مقرر کی گئی ہے۔ اس کا مقصد عدلیہ میں وقتاً فوقتاً نئی قیادت لانا اور ججوں کی تعداد میں اضافہ کر کے مقدمات کے بوجھ کو کم کرنا ہے۔

2. خصوصی عدالتوں کا قیام: سمندر پار پاکستانیوں کی جائیدادوں کے مسائل کے حل کے لیے خصوصی عدالتیں قائم کرنے کی منظوری دی گئی۔ یہ عدالتیں ان کے قانونی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنائیں گی، خاص طور پر ان کی جائیدادوں کے حوالے سے پیش آنے والے مسائل میں۔

3. قانونی اور آئینی تحفظات: اس ترمیم کا مقصد عدلیہ اور پارلیمنٹ کے مابین توازن کو بہتر بنانا اور جمہوری اداروں کو مضبوط کرنا ہے۔

اثرات:

1. عدلیہ کی مضبوطی: چیف جسٹس کی مدتِ ملازمت میں کمی سے عدلیہ میں وقتاً فوقتاً نئی قیادت آئے گی، جو عدالتی نظام کو مزید فعال اور متحرک بنائے گی۔ اس سے فیصلوں میں تیزی آئے گی اور مقدمات کے فیصلے جلد ہوں گے، جس کا اثر عام عوام تک پہنچے گا۔

2. سمندر پار پاکستانیوں کے حقوق کا تحفظ: خصوصی عدالتوں کے قیام سے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو اپنی جائیدادوں کے حوالے سے قانونی تحفظ حاصل ہوگا۔ اس سے سمندر پار پاکستانیوں میں حکومت کے تئیں اعتماد بڑھے گا۔

3. سیاسی اور آئینی استحکام: یہ ترمیم حکومتی اتحادی جماعتوں کے تعاون سے منظور ہوئی ہے، جس سے آئین میں مزید تبدیلیاں لانے کی راہ ہموار ہوئی ہے۔ تاہم، اپوزیشن جماعتوں نے اس ترمیم کو جمہوری اصولوں کے خلاف قرار دیتے ہوئے اس کی مخالفت کی ہے، جس سے سیاسی عدم استحکام کا خدشہ بھی پیدا ہو سکتا ہے۔

ممکنہ چیلنجز:

1. اپوزیشن کی مخالفت: اپوزیشن جماعتوں نے اس ترمیم پر تنقید کرتے ہوئے اسے جمہوریت کے لیے نقصان دہ قرار دیا ہے۔ ان کے مطابق، یہ ترامیم عدلیہ کی آزادی کو محدود کر سکتی ہیں، جس سے جمہوریت کمزور ہو سکتی ہے۔

2. سیاسی انتشار: اپوزیشن کی مخالفت کی وجہ سے ملک میں سیاسی انتشار کا خطرہ موجود ہے، کیونکہ ان ترامیم کو حکومتی طاقت کے اظہار کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

نتیجہ:

26ویں آئینی ترمیم پاکستان کے آئینی ڈھانچے میں ایک اہم قدم ہے، جس کے ذریعے عدلیہ اور قانونی نظام میں بہتری لانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ تاہم، اس کے اثرات کا دارومدار اس بات پر ہو گا کہ آئندہ دنوں میں یہ ترمیم کس طرح عملی جامہ پہنتی ہے اور اپوزیشن اس کے خلاف کیا حکمتِ عملی اختیار کرتی ہے۔ عوام کے لیے یہ ترمیم ایک امید کی کرن ثابت ہو سکتی ہے، خاص طور پر عدلیہ کی مضبوطی اور سمندر پار پاکستانیوں کے حقوق کے تحفظ کے حوالے سے۔

 

 

کامران شہزاد

کامران شہزاد امریکہ کی نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں بین الاقوامی تعلقات کے بیچلر ہیں۔ میں سیاسی تزویراتی جیو پولیٹیکل تبدیلیوں میں دلچسپی رکھتا ہوں۔اور ساتھ میں ہفتہ، وار کالم لکھتا ہوں ٹائم اف انڈیا میں۔ اس کالم نگاری اور گلوبل پولیٹیکل میں کام پچھلے سات سال سے اس شعبے سے وابستہ ہوں۔

کامران شہزاد