فیض احمد فیض اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے اور لڑکپن ہی میں انہیں انگریزی اور اردو ادب پر عبور حاصل تھا۔ ان کی ذہانت نے نئے راستے تراشے۔ فیض احمد فیض کی شاعری اور شخصیت اپنی جغرافیائی حدود سے نکل کر دنیا کے گوشے گوشے میں اس طرح پہنچ گئی کہ 2011ء میں فیض کی جشن صد سالہ کی تقریبات دنیا کے 109 ممالک میں منعقد ہوئیں۔ یہ اعزاز مشکل سے ہی کسی شاعر کے حسے میں آیا ہوگا۔
فیض احمد فیض کی شاعری کا بنیادی موضوع تو انسان دوستی اور درد کا رشتہ ہے، لیکن ان کی شاعری اپنے اسلوب، رنگ و آہنگ اور طرزِ احساس کی بنا پر اتنے رخ رکھتی ہے کہ ان کے کلام سے اظہارِ رائے کے نئے نئے پہلو نکلتے رہتے ہیں۔ فیض کے بارے میں ان کی ابتدائی شاعری اور ان کے پہلے مجموعہ کلام 'نقشِ فریادی' سے ہی طے ہوگیا تھا ان کے کلام میں جاذبیت، دلکشی اور معنویت عناضر موجود ہیں۔
فیص احمد فیض کی شخصیت کے بارے میں جو کچھ تفصیلات ملتی ہیں ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ فیص شروع ہی سے کم سخن اور شرمیلے واقع ہوئے تھے۔ ان کی شخصیت کا یہ رخ تمام تر شہرت اور مقبولیت کے باوجود آخر تک قائم رہا۔ سیالکوٹ میں پیدا ہونے والے فیص نے اپنی اعلیٰ تعلیم ختم کرنے کے بعد شاعری کا جو دور گزارا اس پر دوسری عالمی جنگ کے گہرے سائے منڈلا رہے تھے۔
تاہم ڈاکٹر منصور احمد قریشی 'فیض احمد فیض کی مزاحتمی شاعری' کے عنوان سے لکھے گئے اپنے ایک مضمون میں کہتے ہیں کہ فیض 'ترقی پسند' شعرا کے سلسلے میں داخل و شامل تھے۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ ترقی پسند شاعر اپنی بین الاقوامی دلچسپی کے باوجود بین الاقوامی معیار کی طرف متوجہ نہ ہوسکے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ بین الاقوامی سیاست و اقتصاد سے شاعری کی نسبت زیادہ غرض رکھتے تھے۔
مرزا غالب کے بعد اردو زبان کے دو اور عظیم شاعر پیدا ہوئے۔ ایک تھے سر علامہ محمد اقبال اور دوسرے فیض احمد فیض تھے۔ گویا غالب کے بعد اردو شاعری کو سہارا ملتا رہا اور اس کی عظمت بدستور قائم و برقرار رہی۔ غالب تو حکیم فرزانہ تھے اور ان کے تخیل کی بلندی کا اعتراف اقبال نے بہت ہی اچھے الفاظ میں کیا۔
علامہ اقبال ایک مفکر تھے، جنہوں نے مسلمانانِ ہند کو بیدار کرنے اور انہیں اسلام کی عظمت پارینہ کو بیدار کرنے کیلئے آمادہ کرنے کی کوشش کی۔ چنانچہ بہت اچھا شاعر ہونے کے باوجود انہوں نے شاعری کو اتنی اہمیت نہیں دی جتنی وہ اپنی مخصوص فکر اور نظریہ حیات کو دیتے رہے۔
البتہ ان کے بعد پچھلی صدی میں فیض احمد فیض ایک ایسے شاعر گزرے، جنہوں نے تمام عمر زمین پر بسنے والے انسانوں کے بارے میں سوچا۔ بالخصوص ان انسانوں کے بارے میں جنہیں اس دھرتی پر رہنے والے صاحبِ جائیداد لوگ لوٹتے رہتے ہیں۔ فیض احمد فیض طبقاتی معاشرے کے مخالف تھے۔ وہ ایک ایسا معاشرہ قائم کرنے کے خواہاں تھے، جس میں کوئی وڈیرہ، سرمایہ دار، سامراجی لٹیرہ سادہ لوح، نیک اور محنت کشوں کی محنت کا استحصال نہ کرے۔
فیض احمد فیض ایک ایسے معاشرے کو پھلتے پھولتے دیکھنا چاہتے تھے، جس میں ظالم اور مظلوم طبقات نہ ہوں۔ جس میں ذرائع پیداوار پر نجی ملکیت کے حق کو مقدس نہ سمجھا جائے۔ جس میں سب انسان یکساں حیثیت کے مالک ہوں اور کوئی کسی سے بڑا یا کوئی کسی سے چھوٹا نہ ہو۔ فیض ساری زندگی ایسے معاشرے کے بارے میں سوچتے اور لکھتے رہے۔ وہ دنیا سے ظلم کو مٹا دینا چاہتے تھے اور انہوں نے تمام عمر اس ظلم کیخلاف جہاد کیا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ علامہ اقبال اور فیض احمد فیض کا طرزِ شاعری گوکہ مختلف ہو، لیکن دونوں ہی شعرا نے سیالکوٹ میں علم و دانش حاصل کیا تھا اور فیض احمد فیض کا جشمہ فیض بھی سیالکوٹ ہی رہا۔ فیض نے اقبال کی عظمت کا کھل کر اعتراف کیا ہے۔ یقیناً اقبال کے بعد خود فیض احمد فیض اس دلآویز مقام پر براجمان دکھائی دیتے ہیں، جس پر پہنچنے کی ہر کوئی آس و حسرت کرتا ہے۔
اس میں سرخرو وہی ہوتے ہیں، جو عہد کے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے، زمانے سے آشنا ہوتے ہوئے اور ان آوازوں کو بھی دل و من میں اتار لیتے ہیں جن کے بارے میں کسی کی سوچ بھی نہیں جاتی۔ اس کو ہم انفرادیت بھی کہہ سکتے ہیں اور فیض نے شاعری کے افق پر اپنی اسی انفرادیت کے باعث جگمگاتی ہوئی جگہ بنائی ہے، جو بہت ہی روشن ہے
بقول عابد حسن منٹو، فیض اپنے عہد کی فکر کا عکاس اور مظہر ہے:
'فیض عہدِ جدید کے ایک نئے شعور اور نئی فکری روایات کا علمبردار ہے، یہ شعور زندگی کو ایک کُل اور ایک اِکائی ماننے کے بعد اس کے ارتقا کے بنیادی محرکات کے ادراک سے پیدا ہوتا ہے۔ یہ شعور فرد اور سماج کے مابین ایک رشتے کا سراغ دیتا ہے، جس میں فرد سماجی محرکات کے پس منظر میں ابھر کر سامنے آتا ہے۔ اسی شعور سے غمِ ذات غمِ زندگی کا جزو نظر آتا ہے۔ اور اس لئے غمِ زندگی کی اہلیت مسلم نظر آتی ہے۔
(جاری ہے)